زمیں کے ساتوں طبق ساتوں آسماں مہکے

زمیں کے ساتوں طبق ساتوں آسماں مہکے

حضور آپ کے آنے سے کل جہاں مہکے


بدن سے ٹپکے پسینہ تو لہلہائے چمن

اسی پسینے سے یہ مشک و زعفراں مہکے


گلابِ عشق پیمبر کی دیکھیے نکہت

کہ ایک فرد نہیں سارا خانداں مہکے


خلیلی باغ کے گل پر نثار ہو جاؤ

کہ جس کی عنبریں خوشبو سے جسم و جاں مہکے


نبی کے جسمِ معطّر کے لمسِ اطہر سے

زمین مہکے فلک شمس و کہکشاں مہکے


نگار خانۂ ہستی میں ان کے آنے سے

یہ غنچہ، گل یہ چمن اور گلستاں مہکے


نبی کی نعت ہمیشہ تو گنگنا احمدؔ

نبی کی نعت سے ہر دم تری زباں مہکے

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

جو فردوس تصور ہیں وہ منظر یاد آتے ہیں

سمجھا نہیں ہنُوز مرا عشقِ بے ثبات

مصطفیٰ، شانِ قُدرت پہ لاکھوں سلام

چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے

سرِ سناں سج کے جانے والے

جس سے ملے ہر دل کو سکوں

صبا درِ مصطفی ﷺ تے جا کے

اے امیرِ حرم! اے شفیعِ اُمم

نورِ ازلی چمکیا غائب ہنیرا ہوگیا

یہ کرم یہ بندہ نوازیاں کہ سدا عطا پہ عطا ہوئی