ظلمتِ دنیا مجھے تنہا سمجھ کر یُوں نہ گھیر

ظلمتِ دنیا مجھے تنہا سمجھ کر یُوں نہ گھیر

ماہِ طیبہ کی تجلّی میں نہیں کچھ لگتی دیر


یانبی تیری دُہائی آفتوں میں گِھر گیا

رُخ بدل دے مشکلِوں کا اور بلائیں مجھ سے پھیر


گنبدِ خضرا کو دیکھے ایک عرصہ ہو گیا

کب کُھلے گی میری قسمت اب لگے گی کتنی دیر!


نفس و شیطاں پر مجھے غَلبہ عطا کر یاخدا

اُس علی کا واسِطہ دیتا ہوں جو ہے تیرا شیر


آہ !میزاں پر کھڑا ہوں شافعِ محشر کرم!

نیکیاں پلّے نہیں ہیں بس گناہوں کا ہے ڈھیر


نارِ دوزخ میں نہ لے جائے کہیں مالِ حرام

کر لو توبہ چھوڑ دو اے بھائیو !سب ہیر پھیر


سب کو مرنا ہی پڑیگا یاد رکّھو بھائیو!

دیر میں جائیگا کوئی ،کوئی چلدے گا سَویر


یاخدا عالَم میں اونچا پرچمِ اسلام ہو

دشمنانِ دیں مسلمانوں سے ہوں مغلوب وزیر


عشقِ احمد ہی سے عطاّرؔ آدَمی ہے آدمی

ورنہ یہ مِٹّی کا پُتلا ہے فَقَط مٹّی کا ڈھیر

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

مجھے مدینے کی دو اجازت

عالم افروزہیں کس درجہ حرا کے جلوے

دوہاں عالماں چہ ہوئیاں رُشنائیاں ہے نور بے مثال آگیا

مقبول دُعا کرنا منظور ثنا کرنا

روضہ ہے مِرے سامنے گھر بھول گیا ہوں

سنبھل دا جا تے چل دا جا

نطق و بیان و ہمّتِ گفتار دم بخود

عنوانِ کتاب آفرینش

اے مرشدِ کامل صل علیٰ

خواب، ہی میں رُخِ پُر نور دکھاتے جاتے