روضہ ہے مِرے سامنے گھر بھول گیا ہوں
تھا دل پہ جو دُنیا کا اثر بھول گیا ہوں
اے گنبدِ خضرا میں تِری چھائوں کے قرباں
رستے کا ہر اِک سبز شجر بھول گیا ہوں
اِک ایسا سکوں شہر مدینہ میں ملا ہے
میں سارا جہاں ، سارے نگر بھول گیا ہوں
اس ساعتِ خوش بخت کے دامن سے لپٹ کر
وارفتگیٔ شام و سحر بھول گیا ہوں
دیکھی ہے جو آکر تِرے دربار کی عظمت
ہر حُسن کا معیارِ نظر بھول گیا ہوں
اُمید کے ساحل پہ جو اترا ہوں تو فیضیؔ
دکھ درد کی موجوں کے بھنور بھول گیا ہوں
شاعر کا نام :- اسلم فیضی
کتاب کا نام :- سحابِ رحمت