کیا بیاں ہو شان نظمی گلشن برکات کی

کیا بیاں ہو شان نظمی گلشن برکات کی

کون آنکے قدرو قیمت اس حسیں سوغات کی


ارضِ مارہرہ کی رونق میں لگے ہیں چار چاند

دیکھئے تو نکہتیں اس افتتاحی رات کی


منبرِ نور کا ہر زاویہ نورانی ہے

نور و نکہت کی ہر اک سمت فراوانی ہے


آپ جب پہنچیں یہاں بابِ حسن سے ہو کر

یوں لگے سایہ فگن رشتہء روحانی ہے


آج ہر گام پہ یہ نور سا کیسا بکھرا

سارا ماحول نظر آتا ہے ستھرا ستھرا


تاج علما سے جو منسوب ہوا منبرِ نور

نوری کے فیض سے ہر گوشہ ہے نکھرا نکھرا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

میں اپنے ہار ہنجواں دے پروتے یا رسول اللہ

دل مرا دنیا پہ شیدا ہوگیا

خدا نے بخشیا اے یار سوہناں

مقدور میں دیارِ حَرم کا سفر کہاں

جلتا ہوں اُس پہاڑ پہ لوبان کی طرح

ہوش و مستی سے مجھے کچھ بھی سروکار نہیں

جان و ایماں سے بڑھ کے پیارا ہے

اکھاں تکدیاں راہ راہ گزرتے نگاہ ساڈے ولوں وی ہن تے گزر سوہنیاں

بے کس پہ کرم کیجئے، سرکار مدینہ​

بس قلب وہ آباد ہے جس میں تمہاری یاد ہے