عباس چرخ پر مہِ کامل کا نام ہے

عباس چرخ پر مہِ کامل کا نام ہے

عباس بحرِ شوق کے ساحل کا نام ہے

عباس ضبطِ درد کے حاصل کا نام ہے

عباس کارواں نہیں، منزل کا نام ہے

قرآن جب حسین بنا، دین بن گیا

عباس اس میں سورۂ یٰسین بن گیا


عباس بے مثال دلاور کا نام ہے

عباس بحرِ حق کے شناور کا نام ہے

عباس دیں کے درد کے یاور کا نام ہے

عباس صبحِ صبر کے خاور کا نام ہے

خالق تو لاشریک ہے اجرِ شوال دے

عباس کی وفا کی بھی کوئی مثال دے


عباس اہلِ تیغ بھی اہل قلم بھی ہے

عباس وقفِ غم بھی علاجِ الم بھی ہے

عباس دل کا ناز بھی دیں کا بھرم بھی ہے

عباس تاجدارِ صریر و علم بھی ہے

عباس کا کرم ہے خزانہ بہار کا

عباس کا غضب ہے غضب کردگار کا


عباس حسنِ دین پیمبرؐ کی آبرو

عباس کی وفا کا تسلط ہے کوبکو

باطل کے سامنے ہو یہ کیونکر نہ سرخرو؟

اسلام کی رگوں میں ہے عباس کا لہو

جب بھی کسی جری کو حسیں تخت و تاج دے

عباس کی وفا کو زمانہ خراج دے


عباس حرب و ضرب کی دنیا کا تاجور

عباس دین حق کے لیے مژدۂ سحر

کھیلے نہ یوں قضا کے سلاسل سے بے خطر

عباس پنجتن کی دعاؤں کا ہے اثر

اس کو جھکا سکے گا کوئی کیسے فرش پر

عباس کے علم کا پھریرا ہے عرش پر


توقیر بابِ علم و فقیہِ فلک مقام

تاثیرِ دستِ حیدر و تزئینِ صبح و شام

ادراکِ انبیاء میں دھڑکتا ہوا کلام

پانی سے بے نیاز ہے عباسِ تشنہ کام

عباس ہے انا کا سمندر بنا ہوا

دریا تو شرم سے ہے زمیں پر بچھا ہوا


قصرِ شعورِ دیں میں ہے عباس وہ چراغ

جس کے مقابلے میں ہے سورج بھی داغ داغ

عباس کی مہک سے مہکتا ہے جاں کا باغ

شبیر دل ہی دل ہے تو عباس ہے دماغ

اس کی عطا سے نبضِ مؤدت رواں ہوئی

عباس کے کرم سے شریعت جواں ہوئی


چہرہ ہے یا فلک پہ چمکتا ہے آفتاب

نقشِ قدم کی خاک میں چھپتا ہے انقلاب

عباس کی رگوں میں جو ابھرا ہے اضطراب

سہمی ہوئی ہے موت تہِ سایہء رکاب

عباس جب بھی اذنِ روانی عطا کرے

دریا مچل کے شکر کے سجدے ادا کرے


جرات کی ابتدا بھی یہی انتہا بھی ہے

عباس دو جہاں میں مرا آسرا بھی ہے

تاثیرِ التماسِ دعا بھی، دعا بھی ہے

بندہ بھی رب کا ہے یہی ربِ وفا بھی ہے

ہے دیں اسی کے در کا نمازی بنا ہوا

ہو کر شہید بھی یہ ہے غازی بنا ہوا

شاعر کا نام :- محسن نقوی

کتاب کا نام :- حق ایلیا

دیگر کلام

عیسیٰ بھی ہے خدا کا بڑا مقتدر نبی

سن لو حدیثِ ختمِ رسل پیکرِ حشم

دوشِ نبیؐ کہاں، یہ سناں کی فضا کہاں؟

صورت اگر ہے عرض تو جوہر ہیں خد و خال

اب فرق بھائیوں کا خیالوں میں کیا ہو بند

دُخترِ برقِ رنج و محن بن کے تن ہر بدن میں اجل کی اگن گھول دے

فلک نشاں، عرش مرتبت، کہکشاں قدم، خوش نظر خدیجہؑ

وہ علی عابدؔ بنی ہاشم کی غیرت کا نشاں

نکھرے ہوئے کردار کا قرآن ہے سجادؑ

خورشیدِ شجاعت کی کرن ہے مرا مختار