دُخترِ برقِ رنج و محن بن کے تن ہر بدن میں اجل کی اگن گھول دے
لشکروں کا جگر چیر مستی میں آ، زلزلوں کی طرح گھن گھن گھول دے
منکروں کے لہو کی ہر اک موج میں اپنے ماتھے کی ہر اک شکن گھول دے
اپنے اعداء کے سر آسماں پر اڑا، آبِ دجلہ میں ان کے کفن گھول دے
دیکھ بزمِ شجاعت کا ہر تاجور، تیرے نزدیک ہے اور مرے پاس ہے
یوں لڑیں، دشمنوں کو گماں تک نہ ہو، یہ علی لڑ رہا ہے کہ عباس ہے
میمنہ میں اتر، میسرہ سے ابھر، قلبِ لشکر پہ بجلی گرا جھوم کر
دشمنانِ علیؑ کے پرخچے اڑا، ان کی لاشوں کو دوزخ کا مقسوم کر
اب نقابیں الٹ کر پلٹ دے صفیں، ہر منافق کا شجرہ بھی معلوم کر
بن کے زہرِ اجل آج میداں میں ڈھل میرے بابا کے نقش قدم چوم کر
دیکھ سستی نہ کر موت کی ہم سفر ہر طرف سے دعاؤں کی برسات ہے
تیری ہر ضرب پر آج خیبر شکن داد دینے کو آئے تو پھر بات ہے
سب زمینیں، شجر، بستیاں، رہگذر، رقص کرتی ہوائیں، سمندر ترے
آج کی شب ستاروں کے سب ذائقے، جگنوؤں کی قطاروں کے اندر ترے
موت کی دیویاں ہیں کنیزیں تری، زندگی کے سجیلے سکندر ترے
تیرے خالق کی نصرت ترے ساتھ ہے اور دعاگو ہمارے قلندر ترے
چھین لے دشمنوں کی یہ بینائیاں روزِ روشن میں نازل سیہ رات کر
زندگی کیا ہے خود موت پاؤں پڑے آج چنگاریوں کی وہ برسات کر
سن، کسی کی نہ سن، ایک ہی دھن کو بن اور چن چن کے مغرور سر کاٹ دے
سنسناتی ہوئی سب سروں سے گزر، وار سینے پہ کر اور جگر کاٹ دے
نوک سے روک لے وقت کی گردشیں، دستِ شام و وجودِ سحر کاٹ دے
آج جبریل بھی پر بچھائے اگر تو رعایت نہ کر اس کے پرکاٹ دے
کبریا کا غضب بن کے اترا ہوں میں میرے چہرے پہ جذبات کا رنگ ہے
میرے قبضے میں نبضیں ہیں تقدیر کی میری تاریخ کی اولیں جنگ ہے