جرات، فصیل جبر گرانے کو چاہیے

جرات، فصیل جبر گرانے کو چاہیے

اب بھی حسین سار ے زمانے کو چاہیے


سجدہ اگر امام بھی ہو مقتدی بھی ہو

سجدے کے ساتھ سر بھی کٹانے کو چاہیے


اے راستے کی خاک یہ احسان تو ہی کر

زینب کے سر پہ چادر اڑھانے کو چاہیے


کاٹی گئی تھی خون سے گردن یزید کی

تلوار پھر وہ دھار لگانے کو چاہیے


نیزوں پہ سر، جلے ہوئے خیمے ، اداس شام

اب اور کیا نبیؐ کے گھرانے کو چاہیے


تھوڑے سے خوں سے نام مٹانا ہے ظلم کا

تھوڑا سا خوں چراغ جلانے کو چاہیے


جس میں مصّوروں کا لہو ہو بھرا ہوا

تصویر ایسی آئنہ خانے کو چاہیے


دھن کی تو ٹوٹتی ہی رہیں گی تجوریاں

اک چور غیرتوں کے خزانے کو چاہیے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

تیرے اندر خدا محمدؐ اور قرآن بھرا تھا

علی حق علی

حیدرِ کراّر، امام الاولیا

بہتے بہتے پکارا لہو

کٹنے والی گردنیں، نام و نشانِ کربلا

حرم بھی رو پڑا، ایسی اذان دی تو نے

توحید پر محیط ہے ، قربانیِ حسین

جبر و صبر کے مناظرے کا نام کربلا

لہو تیرا جو اِن آنکھوں کے

جو یقیں زاد ہے جو صابر ہے