آئے وہ اور ملی تازگی تازگی
ان کے دم سے ہے یہ زندگی زندگی
ان کی چوکھٹ پہ میری جبیں جھک گئی
بے خودی، بے خودی، بے خودی، بے خودی
مہر و مہ کہکشاں اور شفق کی چمک
ان کے قدموں سے ہے روشنی روشنی
رخ سے ان کے جو اک پل کو زلفیں ہٹیں
ہر طرف کھل اٹھی چاندنی چاندنی
خِلق میں ان کی لاہوتیت ہے نہاں
خُلق قرآن ہے واقعی واقعی
ان کے ہر کام میں اپنے رب کی رضا
ان کی ہر بات میں سادگی سادگی
مصطفی لا مکاں کی طرف جب چلے
فرش تا عرش تھی سرخوشی سرخوشی
اپنے رب سے ملے، کچھ سنا کچھ کہا
علم حاصل کیا ظاہری باطنی
پھول پتی میں ہو کیا نزاکت بھلا
جو تھی ان ہونٹوں کی نازکی نازکی
طیبہ سے ہم چلے آئے یوں تو مگر
اب تلک دل میں ہے بے کلی بے کلی
نظمی جب منبرِ نعت پر آگیا
دشمنوں میں مچی کھلبلی کھلبلی
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا