پیشانی سے چوموں گا سنگِ درِ جانانہ

پیشانی سے چوموں گا سنگِ درِ جانانہ

دنیا یہی سمجھے گی دیوانہ ہے دیوانہ


خُرمے کی چٹائی نے تن پر ہیں نشاں چھوڑے

سرکارِ دو عالم ہیں، انداز فقیرانہ


رحمت ہیں دو عالم کی بے کس کے وہ یاور ہیں

برسے ہے کرم ان کا اپنا ہو یا بیگانہ


خالق کی عطا سے وہ مالک ہیں خدائی کے

محبوب کی کرسی پر بیٹھے ہیں وہ شاہانہ


ہیں پیٹ پہ سِل باندھے، پیوند ہیں کپڑوں میں

مختارِ دو عالم ہیں، رہتے ہیں غریبانہ


خطبہ پڑھا نبیوں نے اس ذاتِ گرامی کا

جبریل مَلیں ماتھا قدموں پہ غلامانہ


وہ نورِ مجسم ہیں، سب نور انہی کا ہے

ہیں شمع مرے آقا، مخلوق ہے پروانہ


پوروں سے بہیں چشمے اور پیڑ کریں سجدے

ہیں یوں تو بشر آقا، اوصاف جداگانہ


کوثر دیا کثرت دی اللہ نے رفعت دی

خود اپنی زیارت دی، باوصف کریمانہ


ہم عاصی عادی ہیں بد بختی ہماری ہے

وہ عفو و کرم والے، یہ شان رحیمانہ


مارہرہ میں ملتی ہے بغدادی و اجمیری

دو آتشہ چھنتی ہے ایسا ہے یہ میخانہ


نظمی ترے شعروں میں بیدم کی جھلک پائی

مضمون میں ندرت ہے، انداز جداگانہ


میزان پہ محشر میں سرکار یہ فرمادیں

نظمی مرا مستانہ، نظمی مرا مستانہ

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

مسیحائی میں یکتا ہو مدارِ دو جہاں تم ہو

ہماری آپ سے اتنی سی منت یا رسول اللہﷺ

بڑی مشکل میں ہوں مجھ پر کرم ہو یا رسول اللہﷺ

الفت نبی کی روح میں اپنی رچا کے دیکھ

طیبہ سے میرا رشتہ ہے پرانا میرا دل وہیں کا مستانہ

آئے وہ اور ملی تازگی تازگی

لوحِ محفوظ پہ قرآن کی آیت چمکی

کیا قرآن سکھاتا ہے اب سمجھو بھی

واہ دربار ہے ذی شان رسولِ عربیؐ

شافعِ روزِ محشر ہمارے نبی