اپنے پرائے سے بے گانہ لگتا ہے

اپنے پرائے سے بے گانہ لگتا ہے

یہ تو محمد کا دیوانہ لگتا ہے


رختِ سفر باندھ اے دل چل طیبہ کو چلیں

ان کے شہر کا آب و دانہ لگتا ہے


اللہ کا محبوب اور ایک معمولی بشر

ایسا تصور بھی بچکانہ لگتا ہے


جب کوئی آقا کی اہانت کرتا ہے

اپنا ہو تب بھی بے گانہ لگتا ہے


فرقتِ طیبہ کی جب باتیں ہوتی ہیں

ہم کو اپنے دل کا فسانہ لگتا ہے


ایک ہی پیالہ رہزن کو ابدال کرے

یہ تو بغدادی مے خانہ لگتا ہے


ہر جانب انوار کی بارش ہوتی ہے

خواجہ کا در کیا ہی سہانا لگتا ہے


نسبت والے پیروں کا ہوتا ہے کرم

مارہرہ طیبہ کا آنا لگتا ہے


گنبدِ خضریٰ نام آتے ہی مضطر ہو

نظمی طیبہ کا مستانہ لگتا ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

سارے جہاں سے اچھا طیبہ کا گلستاں ہے

مصطفیٰ جان رحمت کی الفت لیے

جو بھیک لینے کی عشاق جستجو کرتے

قبر میں جلوہ دکھانے والے

آمنہ بی بی کے آنگن میں برکت والا آیا ہے

جو پست پست کیا عاصیوں کو وحشت نے

رفعتِ مصطفائی پر عرش کی عقل دنگ ہے

عظمتِ مصطفیٰ جاننے کے لیے صدقِ دل اور فکرِ رسا چاہیے

نبی کی ولادت کا جلسہ منائیں

حشر میں مصطفیٰ کی شفاعت پہ