نبی کی ولادت کا جلسہ منائیں، عبادت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
یہاں ذکر ان کا سنیں اور سنائیں یہ قسمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
ہمیں بارھویں سے ہے اتنی عقیدت کہ عیدوں سے بڑھ کر اسے جانتے ہیں
مناتے ہیں آقا کا یومِ ولادت، سعادت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
خدا کی طرف سے تھی اسریٰ کی دعوت چلے عرش کو وہ بصد شان و شوکت
سرِ لامکاں مصطفیٰ جا کے ٹھہرے، یہ رفعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
مدینہ کے خطے خدا تجھ کو رکھے، ہے نسبت تجھے سرورِ انبیا سے
تری سمت ہم سر کے بل چل کے آئیں، یہ چاہت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
نظر میں بسا ہے وہ آقا کا گنبد تصور میں ہیں ان کے محراب و منبر
ہمیں موت آجاتی اس سرزمیں پر، یہ حسرت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
وہ ہیں مالک کل مگر پھر بھی ان کی غذا ہے وہی جَو کی سوکھی سی روٹی
شکم پر بندھا ہے جو آقا کے پتھر، قناعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
کریں گے مرے آقا محشر کا سجدہ ملے گا شرف ان کو رب کی رضا کا
سنائیں گے ہم کو وہ جنت کا مژدہ، شفاعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
وہ تھے میرے دادا علی جن کے سر پر بندھا یومِ خیبر نیابت کا سہرا
اکھاڑا بچشمِ زدن بابِ خیبر، شجاعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
رسولِ معظم کا کلمہ پڑھیں جو مگر پھر بھی ان کی برائی کریں جو
بشر اپنے جیسا کہیں مصطفیٰ کو عداوت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
پڑھی جب بھی نظمی نے نعتِ محمد تو ایمان والے سبھی جھوم اٹّھے
قلم کا یہ اعجاز احمد رضا کی کرامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا