مصطفیٰ کیسے بشر ہیں کوئی کیا پہچانے

مصطفیٰ کیسے بشر ہیں کوئی کیا پہچانے

ان کی تخلیق کا رمز ان کا خدا ہی جانے


بو لہب نے تو فقط ان کا سراپا دیکھا

دیو کا بندہ نبی کو بھلا کیونکر مانے


ہم تو محشر میں کہیں کے بھی نہ رہتے واللہ

رکھ دیا ہاتھ شفاعت کا شہِ بطحا نے


عشقِ احمد نہ ہو دل میں تو عبادت ہے فضول

لاکھ پھیرا کرو تسبیح کے سوؤں دانے


فاتحہ نام سے دیوبندی بہت چڑتا ہے

پر پہنچ جاتا ہے شبرات کا حلوہ کھانے


غوثِ اعظم کے بھروسے پہ ہیں رن میں اترے

ہے کوئی آئے جو ہم مردوں سے سر ٹکرانے


آیا اسلام مساوات کا پیغام لیے

نئے سر سے سجے تہذیب کے تانے بانے


در بدر ٹھوکریں کھانے سے نہ کچھ حاصل ہو

پیر میرا مجھے کافی ہے یہ جانے مانے


نظمی اُوسر میں کھلاتا ہے عقیدت کے گلاب

بیٹھے ہیں دانتوں تلے انگلی لیے فرزانے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

جو پست پست کیا عاصیوں کو وحشت نے

رفعتِ مصطفائی پر عرش کی عقل دنگ ہے

عظمتِ مصطفیٰ جاننے کے لیے صدقِ دل اور فکرِ رسا چاہیے

نبی کی ولادت کا جلسہ منائیں

حشر میں مصطفیٰ کی شفاعت پہ

نامہ میں مرے بارِ گنہ کم تو نہیں ہے

پیغامِ نور بزمِ ثنائے رسول ہے

طیبہ کی آرزو میں میرا دل اداس ہے

اجالا جس کا ہے دو جہاں میں وہ میرے آقا کی روشنی ہے

مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے