طیبہ کی آرزو میں میرا دل اداس ہے
زندہ ہوں بس کہ پھر وہاں جانے کی آس ہے
منسوخ ہو چکی ہیں تمامی شریعتیں
دینِ محمدی ہی جہاں کی اساس ہے
محبوبِ کبریا کی فضیلت تو دیکھیے
دستِ کرم میں ان کے دو عالم کی راس ہے
قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌمِثْلُکُمْ کی رٹ
نجدی سنبھل وہ نور ہیں، بشری لباس ہے
ہاں مَا اَنَا بِقَارِی فقط انکسار تھا
مَا کَانَ مَا یَکّوْن کا علم ان کے پاس ہے
کیا پوچھتے ہیں آپ ہے کیا خُلقِ مصطفی
قرآنِ پاک کا یہ حسیں اقتباس ہے
جالی درِ رسول کی میں چوم لوں مگر
آداب کا لحاظ ہے حرمت کا پاس ہے
اس کو بھلا ہو فکرِ نکیرین کس لیے
طیبہ کے تاجدار کا جو روشناس ہے
رندانِ معرفت کی بجھے کیسے تشنگی
ساقی ہمیں تو جرعہء کوثر کی پیاس ہے
نورِ ازل کا جلوہء اول حضور ہیں
دل نور جسم نور ہے نوری لباس ہے
طیبہ کی ارض پاک پہ تدفین ہو مری
اللہ کے حضور یہی التماس ہے
قرآن پاک نے ہمیں تعلیم دی یہی
اللہ کے ولی کو نہ غم ہے نہ یاس ہے
مارہرہ ہند میں ہے مدینہ عرب میں ہے
دو جسم دور دور ہیں دل پاس پاس ہے
پیوست لب ہوں اسمِ محمد پہ بار بار
دیکھو تو ان کے نام میں کتنی مٹھاس ہے
نظمی کو فخر اپنے نسب پر نہیں مگر
ہاں یہ کہ مصطفیٰ کے گھرانے کا داس ہے
نظمی کفن میں یوں ہی نہیں مسکرائے ہے
دیدارِ مصطفیٰ کی اسے پوری آس ہے
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا