جب محشر میں پہنچوں گا میں عصیاں کا انبار لیے

جب محشر میں پہنچوں گا میں عصیاں کا انبار لیے

آجائیں گے جنت کا پروانہ مرے سرکار لیے


آج بھی فتح و نصرت پرقبضہ ہو قومِ مسلم کا

کاش جئیں ہم اس دنیا میں قرآنی کردار لیے


جب کوئی بد دیں دشمن مجھ سے ٹکّر لینے آئے گا

اٹھ جاؤں گا نادِ علی کی دو دھاری تلوار لیے


مسلک پر قائم رہنا ہی دین کی سچی خدمت ہے

پکے نمازی، سچے غازی جیو یہی کردار لیے


وعدہ خلافی جھوٹ زِنا سٹّہ بازاری سب کیا ہے

ایسے جیوگے کیسے جیوگے شیطانی معیار لیے


تم سے زمانہ ڈرتا تھا اب تم ڈرتے ہو زمانے سے

زندہ رہوگے کب تک دہشت کا کالا بازار لیے


جاگ مسلماں جاگ عقائد کی شمعوں کو روشن کر

ولیوں کے دامن میں آجا دل کا کاروبار لیے


بابِ ارم پر جب پہنچوں گا نامِ محمد لب پہ لیے

استقبال کو آئیں گے رضواں اک نورانی ہار لیے


یا شہ جیلاں شیئَاللہ، اپنا وظیفہ ہے ہر دم

بیٹھ گئے ہیں غوث کے در پر آرزوئے دیدار لیے


روح کو صیقل کروانے کو آؤ چلو اجمیر چلیں

آج بھی خواجہ جلوہ فگن ہیں روحانی دربار لیے


نظمی تیری نعتوں میں دل کی عکاسی ہوتی ہے

اک اک نعت سجاتا ہے تو مدحت کے اشعار لیے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

پیغامِ نور بزمِ ثنائے رسول ہے

طیبہ کی آرزو میں میرا دل اداس ہے

اجالا جس کا ہے دو جہاں میں وہ میرے آقا کی روشنی ہے

مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے

لامکاں سے بھی آگے جس کی شانِ رفعت ہے

شانِ رسالت ہم سے نہ پوچھو، پوچھو پوچھو قرآں سے

درود پڑھتے رہیں مصطفیٰ کی بات چلے

نکہت ہے تن بدن میں، فضا میں نکھار ہے

مالک کہوں کہ صاحبِ رحمت کہوں تجھے

روحِ حیات عشقِ حبیبِ خدا میں ہے