مالک کہوں کہ صاحبِ رحمت کہوں تجھے

مالک کہوں کہ صاحبِ رحمت کہوں تجھے

پروردگارِ خلق کی نعمت کہوں تجھے


تیری صفت میں زمزمہ خواں خود کلامِ حق

ہاں ہاں اسی قرآن کی آیت کہوں تجھے


والشمّس والضحیٰ میں ترے زلف و رخ کا ذکر

اے جانِ حُسن روح کی راحت کہوں تجھے


اللہ نے خزانے تجھے سارے دے دیے

معطی ہے رب تو قاسمِ نعمت کہوں تجھے


تو مصطفیٰ ہے ظلِّ خدائے قدیر ہے

پھر کیوں نہ شمعِ بزمِ ہدایت کہوں تجھے


قصرِ دنا میں تیری رسائی کی دھوم ہے

معراج والے صاحبِ رفعت کہوں تجھے


انسان کی مجال کہ تجھ کو سمجھ سکے

آقا میں شاہ کارِ قدرت کہوں تجھے


تیری طرف ہیں سارے رسولوں کی نسبتیں

مولیٰ میں شاہِ بزمِ رسالت کہوں تجھے


بعثت پہ تیری ختم نبوت کا سلسلہ

پھر کیوں نہ مہرِ ختمِ نبوت کہوں تجھے


مالک خدا نے تجھ کو بنایا خدائی کا

رب کی عطا سے قاسمِ نعمت کہوں تجھے


محشر کے روز جب ترے ہاتھوں میں ہو لوا

اے جانِ جاں میں جانِ شفاعت کہوں تجھے


مالک ہے تو ہی کوثر و تسنیم کا شہا

اے تاج والے صاحبِ کثرت کہوں تجھے


ارض و سما کو نور ترے نور سے ملا

خالق کا بندہ باعث خلقت کہوں تجھے


آدم سے تا مسیح یہ تیرا ہی ذکر ہے

رب کے چنے ہوؤں کی بشارت کہوں تجھے


ہاں زندگی میں تیرے ہی دم سے ہے زندگی

اس زندگی کا منبعِ حرکت کہوں تجھے


تیری ہی ذات رحمت و اکرام کا سبب

بندوں کے حق میں رب کی عنایت کہوں تجھے


تیرے صحابہ مثل مہ و مہر و کہکشاں

اے نور والے مرکزِ طلعت کہوں تجھے


اے سید البلاد مدینہ کہیں جسے

جی چاہتا ہے نازشِ جنت کہوں تجھے


اے سبز رنگ گنبدِ خضریٰ ترے نثار

مومن کے دل کی آخری چاہت کہوں تجھے


نظمی یہ وہ سخن نہیں جو ختم ہو سکے

نورِ ازل کی جاری حقیقت کہوں تجھے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

لامکاں سے بھی آگے جس کی شانِ رفعت ہے

جب محشر میں پہنچوں گا میں عصیاں کا انبار لیے

شانِ رسالت ہم سے نہ پوچھو، پوچھو پوچھو قرآں سے

درود پڑھتے رہیں مصطفیٰ کی بات چلے

نکہت ہے تن بدن میں، فضا میں نکھار ہے

روحِ حیات عشقِ حبیبِ خدا میں ہے

وہ بختاور ہیں جن کو دم بدم یادِ خدا آئے

کس کے چہرے میں یہ خورشید اتر آیا ہے

ٹھہرو ٹھہرو رہ جاؤ یہیں کیوں طیبہ نگر سے دور چلے

دل میں عشقِ مصطفی کا رنگ بستا جائے ہے