مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے

مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے

میں نام آقا کا لے لیتا ہوں سب ڈر کانپ اٹھتا ہے


کرم کی اک نظر جب میرے آقا ڈال دیتے ہیں

عمر کی دشمنی کا سارا تیور کانپ اٹھتا ہے


حرا پر وہ تخنّث کی مبارک خلوتیں واللہ

تصور کرتے ہی ایک ایک پتھر کانپ اٹھتا ہے


بتوں کے شہر میں اک بت شکن کی ہمتِ عالی

جو ہو عزمِ براہیمی تو آذر کانپ اٹھتا ہے


زمیں پر گر گئے صبحِ ولادت چودہ کنگورے

نبی کے آتے ہی کسریٰ کا سب گھر کانپ اٹھتا ہے


ہٹا دیتے ہیں آقا جب بھی زلفیں اپنے چہرے سے

ضیا رخسار کی پاتے ہی خاور کانپ اٹھتا ہے


وہ جن کو کہتے ہیں شیرِ خدا مشکل کشا حیدر

علی کا نام آتا ہے تو خیبر کانپ اٹھتا ہے


صراط اوپر غلامِ مصطفی چلتا ہے اترا کر

تو اس کے نور سے دوزخ کا جوہر کانپ اٹھتا ہے


گنہگاروں کو نظمی شافعِ محشر بچاتے ہیں

وہ رحمت بن کے آتے ہیں تو محشر کانپ اٹھتا ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

مصطفیٰ کیسے بشر ہیں کوئی کیا پہچانے

نامہ میں مرے بارِ گنہ کم تو نہیں ہے

پیغامِ نور بزمِ ثنائے رسول ہے

طیبہ کی آرزو میں میرا دل اداس ہے

اجالا جس کا ہے دو جہاں میں وہ میرے آقا کی روشنی ہے

لامکاں سے بھی آگے جس کی شانِ رفعت ہے

جب محشر میں پہنچوں گا میں عصیاں کا انبار لیے

شانِ رسالت ہم سے نہ پوچھو، پوچھو پوچھو قرآں سے

درود پڑھتے رہیں مصطفیٰ کی بات چلے

نکہت ہے تن بدن میں، فضا میں نکھار ہے