نامہ میں مرے بارِ گنہ کم تو نہیں ہے

نامہ میں مرے بارِ گنہ کم تو نہیں ہے

آقا ہیں شفیع پھر مجھے کچھ غم تو نہیں ہے


طیبہ سے وطن چلنے کو کہتا ہے ابھی سے

دشمن ہے تو اے دل میرا ہم دم تو نہیں ہے


آنسو نے مرے حال کا پردہ نہیں رکھا

یہ آنکھ مرے قلب کی محرم تو نہیں ہے


ہر سانس پڑھے جا مرے آقا کا قصیدہ

دھڑکن اے مرے دل تری مدّھم تو نہیں ہے


گا گا کے اے نادان نہ کر قراتِ قرآں

نغمہ ہے یہ توحید کا، سرگم تو نہیں ہے


آقا کا تصور ہے مرے قلب کی زینت

عاشق کو یہ نعمت بھی کوئی کم تو نہیں ہے


ہو جائے کسی طور سے آقا کے برابر

اتنا کسی انسان میں دم خم تو نہیں ہے


ماں باپ دل و جان یہ رنگینیِ دنیا

آقا کی محبت پہ مقدم تو نہیں ہے


سرکار کی یاد آتے ہی تسکین ملی ہے

پہلا سا مرے دل کا وہ عالم تو نہیں ہے


شعروں میں مرے رنگ جھلکتا ہے رضا کا

زیادہ نہ سہی عشق مگر کم تو نہیں ہے


ہر شعر عقیدت کے ترازو پہ تُلے گا

یہ نعت ہے اخبار کا کالم تو نہیں ہے


نظمی تری نعتوں میں بلا کی ہے روانی

آقا کا کرم تجھ پہ کبھی کم تو نہیں ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

رفعتِ مصطفائی پر عرش کی عقل دنگ ہے

عظمتِ مصطفیٰ جاننے کے لیے صدقِ دل اور فکرِ رسا چاہیے

نبی کی ولادت کا جلسہ منائیں

حشر میں مصطفیٰ کی شفاعت پہ

مصطفیٰ کیسے بشر ہیں کوئی کیا پہچانے

پیغامِ نور بزمِ ثنائے رسول ہے

طیبہ کی آرزو میں میرا دل اداس ہے

اجالا جس کا ہے دو جہاں میں وہ میرے آقا کی روشنی ہے

مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے

لامکاں سے بھی آگے جس کی شانِ رفعت ہے