ہے کیا جتنا سفر شہرِ مدینہ کی طرف

ہے کیا جتنا سفر شہرِ مدینہ کی طرف

سب ہے تابندہ سفر شہرِ مدینہ کی طرف


عہدِ حاضر میں سیاحت کے مزے اپنی جگہ

ہے مگر یکتا سفر شہرِ مدینہ کی طرف


زندگانی کی ہے ساری ہی مسافت بے سود

گر نہ ہو پایا سفر شہرِ مدینہ کی طرف


موت آغوش میں لینے کے لیے تھی بے چین

کر گیا زندہ ، سفر شہرِ مدینہ کی طرف


دوسری بار ہے لایا مجھے خوش بختی سے

میرا دوبارہ سفر شہرِ مدینہ کی طرف


کلکِ راقم پہ کسی خاص کرم کا ہے ظہور

’’سطرِ مدحت کا سفر شہرِ مدینہ کی طرف‘‘


رستے طاہرؔ یہ عدم کے بھی کرے گا روشن

زندہ پائندہ سفر شہرِ مدینہ کی طرف

کتاب کا نام :- طرحِ نعت

دیگر کلام

سرکارِؐ دو عالم کی ہوئی کیسی عطا ہے

دیں اذنِ حضوری مرے اشکوں کی صدا ہے

تاثیر اسی در سے ہی پاتی ہے مری لے

بحرِ مدحت کا سفر شہرِ مدینہ کی طرف

شوقِ جنت کا سفر شہرِ مدینہ کی طرف

ہے سدا فتح و ظفر شہرِ مدینہ کی طرف

رو میں ہے میرا قلم ذکرِ مدینہ کی طرف

آنکھ جب سے ہے جمی خلدِ تمنّا کی طرف

وہ تو الطاف پہ مائل ہیں عدو کی بھی طرف

کعبہ سے جائوں مدینہ تو مدینے سے نجف