ہم کہاں مدحتِ سرور کا ہنر رکھتے ہیں

ہم کہاں مدحتِ سرور کا ہنر رکھتے ہیں

حرفِ توصیف میں بس دیدۂ تر رکھتے ہیں


وہ جسے چاہیں گے تعبیر عطا کر دیں گے

ان کی دہلیز پہ ہر خواب کا سر رکھتے ہیں


موند کر آنکھ مواجہ پہ پہنچ جائیں گے

ہم تہی دست یہی طرزِ سفر رکھتے ہیں


بابِ تعبیر پہ اک ناقہ سوار آئے گا

عجز پلکوں کا سرِ راہ گزر رکھتے ہیں


شب گزیدہ ہیں اندھیروں کے طرف دار نہیں

اپنی پلکوں پہ تمنائے سحر رکھتے ہیں


تیری نسبت ہی نے شاداب کیا ہے ورنہ

خشک اشجار کہاں برگ و ثمر رکھتے ہیں


پیش کر دیں گے سرِ جلوہ گہِ شاہِ امم

اپنی پلکوں میں پس انداز گہر رکھتے ہیں


جس کو دو لخت کریں وہ جسے الٹا پھیریں

نوکِ انگشت پہ خورشید و قمر رکھتے ہیں


دربدر ہونے کی اشفاقؔ ضرورت ہی نہیں

ہاتھ پھیلانے کو سرکار کا در رکھتے ہیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

ترے نام کے نور سے ہیں منور مکاں بھی مکیں بھی

معجزاتِ کن فکاں کا ایک ہی مفہوم ہے

کہتا ہوں جب بھی نعت مدینے کے شاہ کی

عطا ہوئے ہیں رفیع جذبے

کہوں گا حالِ دل سرکارِ عالم کملی والے سے

یاد سینے میں سمائی ترے دربار کی ہے

ہر اک بات امی لقب جانتے ہیں

جس کا سر محمدﷺ کے در پہ خم نہیں ہوتا

شاہِ مدینہ! طلعت اختر تورے پیّاں میں

صحنِ گلشن میں گھٹا نور کی چھائی ہوئی ہے