معجزاتِ کن فکاں کا ایک ہی مفہوم ہے

معجزاتِ کن فکاں کا ایک ہی مفہوم ہے

دو جہاں میں محورِ کون و مکاں کی دھوم ہے


یہ مدینہ ہے سرور و راحتِ قلب و نظر

بے قراری کا تصور بھی یہاں معدوم ہے


نعت کہنے کا سلیقہ بھی کہاں آیا مجھے

میرا گفتہ صرف ان کی جستجو منظوم ہے


دو جہاں کی کامیابی اس کی باندی ہو گئی

جس کو طاعاتِ نبی کا راستہ معلوم ہے


رفعتِ شبیر پر قرباں فلک کی رفعتیں

پشتِ شاہِ انبیاء پر لاڈلا معصوم ہے


چند ہیں اشکِ ندامت نامۂ اعمال میں

ایک طغرائے ندامت روح پر مرقوم ہے


زائرو کہنا مواجہ پر بصد عجز و نیاز

بہرِ کوئے مصطفیٰ اشفاقؔ بھی مغموم ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

تیرے در پر خطا کار ہیں سر بہ خم اے وسیع الکرم

مدحِ ناقہ سوار لایا ہوں

شاہِ کونین کا سنگِ در چھو لیا

میم تیرے نام کی تلخیصِ ہست و بود ہے

ترے نام کے نور سے ہیں منور مکاں بھی مکیں بھی

کہتا ہوں جب بھی نعت مدینے کے شاہ کی

عطا ہوئے ہیں رفیع جذبے

کہوں گا حالِ دل سرکارِ عالم کملی والے سے

ہم کہاں مدحتِ سرور کا ہنر رکھتے ہیں

یاد سینے میں سمائی ترے دربار کی ہے