ترے نام کے نور سے ہیں منور مکاں بھی مکیں بھی

ترے نام کے نور سے ہیں منور مکاں بھی مکیں بھی

ترے در سے چمکا رہے ہیں مقدر مکاں بھی مکیں بھی


ہوا نور تخلیق روحِ دو عالم کا ہر شے سے پہلے

رہے قبلِ تخلیقِ سرور مؤخر مکاں بھی مکیں بھی


مبارک پسینے کی نایاب خوشبو وہ لائیں کہاں سے

سبھی ڈھونڈتے ہیں وہی مشک و عنبر مکاں بھی مکیں بھی


زمین و زماں پر مکاں لا مکاں میں حکومت ہے تیری

ترے نقشِ پا نے کیے ہیں مسخر مکاں بھی مکیں بھی


اگر وجہِ تخلیقِ عالم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا

رہینِ رسالت ہیں دونوں سراسر مکاں بھی مکیں بھی


درودوں سلاموں کے گجرے نچھاور کیے جا رہے ہیں

ترے ذکر سے ہو رہے ہیں معطر مکاں بھی مکیں بھی


حرم میں تھی رونق نہ انسانیت کا یہ عز و شرف تھا

تری نسبتوں سے ہوئے ہیں موقر مکاں بھی مکیں بھی


اِدھر نعت کہنے کی خدمت پہ مامور اشفاقؔ احمد

اُدھر داد و تحسین پر ہیں مقرر مکاں بھی مکیں بھی

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

چاند تاروں سے سرِ افلاک آرائش ہوئی

تیرے در پر خطا کار ہیں سر بہ خم اے وسیع الکرم

مدحِ ناقہ سوار لایا ہوں

شاہِ کونین کا سنگِ در چھو لیا

میم تیرے نام کی تلخیصِ ہست و بود ہے

معجزاتِ کن فکاں کا ایک ہی مفہوم ہے

کہتا ہوں جب بھی نعت مدینے کے شاہ کی

عطا ہوئے ہیں رفیع جذبے

کہوں گا حالِ دل سرکارِ عالم کملی والے سے

ہم کہاں مدحتِ سرور کا ہنر رکھتے ہیں