جہاں نظرِ محمد کا نشانہ ٹھہر جاتا ہے

جہاں نظرِ محمد کا نشانہ ٹھہر جاتا ہے

وہیں چلتا ہوا سارا زمانہ ٹھہر جاتا ہے


گواہ ہے مسجدِ نبوی کی دِیواریں کہ سجدہ میں

جو شانوں پر نواسہ ہو تو نانا ٹھہر جاتا ہے


قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ غَارِ ثَور پہ جا کر

زمانے بھر کے یاروں کا یارانہ ٹھہر جاتا ہے


جِسے کہتے ہیں سب حَبشی اُسی حبشی کی چو کھٹ پر

نبی کی ذَات کا ہر اِک دیوانہ ٹھہر جاتا ہے


عجب تقسیم اُلفت کی نظر آتی ہے سدرہ پر

اپنا رُک نہیں سکتا بیگانہ ٹھہر جاتا ہے


جہاں باطل مِٹا نا ہو جہا ں حق بچانا ہے

وہاں میرے محمد کا گھرانہ ٹھہر جاتا ہے


اگر پڑھتا نہیں حبشی اَذاں صُبح کی اَے حاؔکم

تو صُبح کے لئے سُورج کا آنا ٹھہر جاتا ہے

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

محمد دے بناں دنیا تے کی اے

بادل کو زُلف چاند کو چہرا سمجھ لیا

یہ دنیا ایک سمندر ہے مگر ساحِل مدینہ ہے

رُخِ سرکار سا کوئی نظارا ہو نہیں سکتا

ہر شے خدا نے بنائی اے سوہنے مدنی دے واسطے

سرتا پا حِجاب آپ ہیں

ہر تھاں اُجالے مُحمد دے

اس دنیا سے آقا جب کوچ ہمارا ہو

محفل ہے یہ آقا کی کیا خوب نظارے ہیں

یوں تو اللہ نے کیا کیا نہ سنوارا ہوگا