خَلق کیوں اُس کی نہ گرویدہ ہو

خَلق کیوں اُس کی نہ گرویدہ ہو

وہ جو خالق کا پسندیدہ ہو


ہو گیا نطق پھر آمادہ نعت

اب تو شاد اے دلِ غم دیدہ ہو


اُس پہ ہوتی ہے عنایت کیا کیا

اُمّتی گر کوئی رنجیدہ ہو


شانہ حکمتِ شہؐ سلجھائے

کاکلِ زیست جو ژولیدہ ہو


آرزو ہے کہ نہالِ افکار

فیضِ سرکارؐ سے بالیدہ ہو


غم ِ دوراں اُسے کیا یاد آئے

یادِ خواجہؐ میں جو غلطیدہ ہو


دیکھیے کب میں چلوں سُوئے حجاز

سرخرو کب طلبِ دیدہ ہو


تائبؔ آسودہ رحمت ہے وہ فرد

خاکِ طیبہ میں جو خوابیدہ ہو

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

یوں ذہن میں جمالِ رسالت سماگیا

ظہورِ سرورِ کون و مکاں ، ظہورِ حیات

ماورائے حدِ ادراک رسولِؐ اکرم

نامِ رسولؐ سے ہے نمودِ کمالِ فن

انبیاؑ میں عدیم النظیر آپ ہیں

عالم افروزہیں کس درجہ حرا کے جلوے

نشاطِ روح خیالِ محمدِّؐ عربی

غنی ہے شاعرِ نادار اے شہِؐ ابرار

کہاں زبانِ سخن ور، کہاں ثنائے حبیبؐ

نبیؐ کو مظہرِ شانِ خدا کہیے، بجا کہی