کیا مجھ سے ادا ہوں ترے حق ہادئ بر حق

کیا مجھ سے ادا ہوں ترے حق ہادئ بر حق

مقبول ہو ما تھے کا عرق ہادئ بر حق


اغیار سرافراز ہوے برمِ جہاں میں

سیرت سے تری لے کے سبق ہادئ بر حق


ہم بھول کے پیغام ترا ہوگئے رسوا

جینے نہیں دیتا یہ قلق ہادئ بر حق


ڈرتا ہوں کہیں صر صرِدوراں نہ اُڑالے

باقی ہے جو ایماں کی رمق ہادئ برحق


پا کر تری انگشتِ شہادت کا اشارہ

مہتاب کا سینہ ہُوا شق ہادئ بر حق


اللہ نے بخشی تجھے کونین کی شاہی

محکوم ترے چودہ طبق ہادئ بر حق


دیتا ہے تری سیرتِ نوریں پہ گواہی

قرآن کا ایک ایک ورق ہادئ بر حق


لاریب ہے خوں تیرے شہیدان وفا کا

جس سے ہے ضیا گیر شفق، ہادئ بر حق


تائبؔ کو زمانے کے اندھیروں سے بچالے

پیٖغامبرِ ربِّ فلق، ہادئ بر حق

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

روح مین کیفِ ثنا پاتا ہوں

رسولِؐ عالمیاں، ذاتِ لم یزل کا حبیب

لب پر نبیؐ کا اسمِ مبارک رواں ہوا

مہر ھدٰی ہے چہرہ گلگوں حضورؐ کا

اترے ملک زمینِ حرم پر تیرے حضور

زیست کی روحِ رواں ہے مرے خواجہؐ کی نظر

کِھلا گئی ہے بہر سُو نبیؐ کی طبعِ نفیس

کب ہوگی شبِ ہجراں کی سحراے سرورِ ؐ عالم صلِّ علیٰ

تیرا دربار ہے عالی آقاؐ

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار