لب پہ جاری جو ذکرِ نبی ہو گیا

لب پہ جاری جو ذکرِ نبی ہو گیا

گھر مرا روشنی روشنی ہو گیا


آپ آئے تو یثرب مدینہ ہوا

پھر شِفا وہ دیارِ نبی ہو گیا


وہ جو آئے ، دلِ عاصیاں کِھل اُٹھے

ہر زباں پر نبی یا نبی ہو گیا


اُن کا ہجرت میں تھا جو رفیقِ سفر

وہ لحد میں رفیقِ نبی ہو گیا


جس پہ چشمِ کرم ہوگئی آپ کی

وہ عُمر جیسا مردِ جری ہو گیا


آپ کے نُور سے جو نوازا گیا

مرحبا ! مرحبا وہ غنی ہو گیا


ہاتھ تھاما ، کہا جس کو 'اَنتَ اَخِیٰ

تا قیامت وہ مولا علی ہو گیا


شُکر ہے اب مُجھے کوئی حاجت نہیں

وہ کرم مُجھ پہ میرے سخی ہو گیا


ہے جلیل اُن کی مدحت وظیفہ مرا

قبر کے واسطے روشنی ہو گیا

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

رویّہ بد زبانی کا وہ اپنانے نہیں دیتے

بُلا لیجے گا عاصی کو بھی در پر یا رسول اللہ

مری خوش نصیبی کی یہ انتہا ہے

ہمسفر جس جگہ رُک گیا آپ کا

رہتا ہوں خیالوں میں ہر آن مدینے میں

دلوں میں ارضِ بطحا کی جو لے کر آرزو نکلے

خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے

وطیرہ آپ کا آقا ! کرم کی انتہا کرنا

جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول