جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول

جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول

اُس کا ہر ایک دعوٰی ہے باطِل، نہیں قبول


دل میں خُداُ کی یاد ہو یا مُصطفٰےْ کی یاد

دل گر ہوا ہو دونوں سے غافل، نہیں قبول


رونق ہر ایک بزم کی ذکرِ نبی سے ہے

جس میں نہیں ہے ذکر وہ محفِل نہیں قبول


عشق و وفا کا آپ سے، دعوٰی تو ہو مگر

پھر بھی رہے وہ غیر سے واصِل،نہیں قبول


اپنے تئیں تو ہو بڑا عالِم مگر جسے

اُن کی نہیں شناس وہ جاہل نہیں قبول


جس کو درِ رسول کا پاسِ ادب نہ ہو

ایسا کوئی بھی عالِم و فاضِل نہیں قبول


جس کی نظر میں بس گیا طیبہ نگر کا چاند

اُس کو فلک کا پھر مہِ کامل نہیں قبول


اعمال کی کسوٹی ہے سُنّت رسول کی

سنت سے منحرف ہے جو عامِل، نہیں قبول


جو منصبِ قضا پہ نہیں عدل کر سکا

اللہ ﷻ کے حضور میں عادِل نہیں قبول


نافع نہیں ہے علم جو مخلوق کے لئے

ایسے کسی بھی عِلم کا حامِل نہیں قبول


جس میں خیالِ ارضِ مدینہ نہ ہو جلیل

اللہ ﷻ کو بھی وہ دلِ غافل نہیں قبول

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

لب پہ جاری جو ذکرِ نبی ہو گیا

دلوں میں ارضِ بطحا کی جو لے کر آرزو نکلے

خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے

وطیرہ آپ کا آقا ! کرم کی انتہا کرنا

سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے

ہم سے عاصی مدینے بُلائے گئے

ملتا ہے بہت وافر خالق کے خزانے سے

مشکلوں میں ہیں چشمِ کرم کیجئے

زندگی کا ہے وظیفہ الصّلوٰۃُ والسّلام