خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

غمِ فُرقت کو سہہ لینا ، یہ مُمکن ہے کہاں ہم سے


خُدا گر لے گیا ہم کو ، اُنہی کو جا سُنائیں گے

وہی تو غم میں سُنتے ہیں ، ہماری داستاں ہم سے


ترا صد شُکر ہے مولا ! کہ بخشا ہے حبیب اپنا

نہ جانے کس قدر لیتا ، زمانہ اِمتحاں ہم سے


نوازا شفقتوں سے بھی ، تو کی ہے اشک شوئی بھی

ہمارے رنج و غم میں جو سُنی آہ و فغاں ہم سے


کرم اُن کا ہوا ہم پر ، ہمیں طیبہ میں بُلوایا

وگرنہ کیسے جا پاتے ، ضعیف و ناتواں ہم سے


تُجھے سُورج ، سِتاروں پر ، قمر پر ، ناز ہے لیکن

زمیں پر اُن کا روضہ ہے، یہ سُن لے آسماں ہم سے


اُنہی کے آستانے سے ، کرم کی بھیک ملتی ہے

زمانہ چُھوٹ جائے پر ، نہ چُھوٹے آستاں ہم سے


خُدا کا شُکر ہے ! جس نے ہمیں توفیق بخشی ہے

وگرنہ آپ کی مدحت ، شہا ! ہوتی کہاں ہم سے


تمنّا ہے کہ ہو جائیں خُدا و مُصطفٰے راضی

جلیل اس کی نہیں پروا جو رُوٹھے کُل جہاں ہم سے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

مری خوش نصیبی کی یہ انتہا ہے

ہمسفر جس جگہ رُک گیا آپ کا

رہتا ہوں خیالوں میں ہر آن مدینے میں

لب پہ جاری جو ذکرِ نبی ہو گیا

دلوں میں ارضِ بطحا کی جو لے کر آرزو نکلے

اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے

وطیرہ آپ کا آقا ! کرم کی انتہا کرنا

جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول

سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے

ہم سے عاصی مدینے بُلائے گئے