سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے

سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے

بے عمل خاطی ہوں لیکن مُصطفٰےسے پیار ہے


پاک رکھ بُغض و حسد کی گرد سے اِس کو، اگر

اپنے من کے آئینے میں روشنی درکار ہے


اہلِ ذر ، نادار و بے کس ، آ رہے ہیں سب یہاِں

سب کو یکساں دے رہا ہے ، وہ ترا دربار ہے


انبیا و مُرسلیں پہنچے نہیں اس اوج پر

جو گیا معراج پر وہ سیّدُ الابرار ہے


انبیاء پیچھے کھڑے ہیں ہاتھ باندھے صف بہ صف

آج ہے جو مُقتدا وہ احمدِ مُختار ہے


آپ کی سُنّت رہا جس کا وطیرہ عُمر بھر

دو جہاں میں باخُدا ! اُس کا ہی بیڑہ پار ہے


گرچہ ہوں رنج و الم کے ایک صحرا میں مگر

غمزدوں کا چارہ گر آقا مرا غمخوار ہے


نافعِ مخلوق ہے اچھا زمانے میں جلیل

من کی تختی پر لکھو ! یہ گُفتۂ سرکارْ ہے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

دلوں میں ارضِ بطحا کی جو لے کر آرزو نکلے

خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے

وطیرہ آپ کا آقا ! کرم کی انتہا کرنا

جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول

ہم سے عاصی مدینے بُلائے گئے

ملتا ہے بہت وافر خالق کے خزانے سے

مشکلوں میں ہیں چشمِ کرم کیجئے

زندگی کا ہے وظیفہ الصّلوٰۃُ والسّلام

وہ دن آئیں کبھی ہم بھی بنیں مہماں مدینے میں