ہم سے عاصی مدینے بُلائے گئے

ہم سے عاصی مدینے بُلائے گئے

یعنی روتے ہوئے پھر ہنسائے گئے


جا کھڑے تھے مواجہ کے جب سامنے

خوب جی بھر کے آنسو بہائے گئے


دِل کی تختی پہ وہ مُرتسم ہو گئے

جو مناظر وہاں پر دِکھائے گئے


نام اُن کے جہاں میں امر ہو گئے

دار پر اُنْ کی خاطر جو لائے گئے


اُن کی چشمِ کرم ہے کہ گرداب سے

خوش مُقدّر کنارے لگائے گئے


روزِ محشر کا منظر بھیانک بہت

سو شِفاعت کے مُژدے سُنائے گئے


جن میں حلقے درودوں کے ہوتے رہے

بام و در اُن گھروں کے سجائے گئے


گو کہ طائف میں پتھر برستے رہے

ہاتھ پھر بھی دُعا کو اُٹھائے گئے


سو جلیل اپنی برزخ بھی آساں ہوئی

اُنکے جلوے لحد میں کرائے گئے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے

وطیرہ آپ کا آقا ! کرم کی انتہا کرنا

جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول

سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے

ملتا ہے بہت وافر خالق کے خزانے سے

مشکلوں میں ہیں چشمِ کرم کیجئے

زندگی کا ہے وظیفہ الصّلوٰۃُ والسّلام

وہ دن آئیں کبھی ہم بھی بنیں مہماں مدینے میں

منم ادنیٰ ثنا خوانِ محمّدؐ