دلوں میں ارضِ بطحا کی جو لے کر آرزو نکلے

دلوں میں ارضِ بطحا کی جو لے کر آرزو نکلے

بٹھایا سب نے آنکھوں پر ، بڑے با آبرو نکلے


سُنایا دردِ دل اُن کو تو سینہ ہو گیا ٹھنڈا

ہوئی چشمِ کرم اُن کی تو ہوکر سُرخرو نکلے


مدینے میں اجل آئے ، وہیں پر ہو لحد میری

دلِ مُضطر میں پوشیدہ ، یہی اِک آرزو نکلے


لبوں پر دم ہو جب میرا ،ترا دیدار ہو جائے

کہ دُنیا سے جو ہو رُخصت تو بندہ مشکبو نکلے


زمین و آسماں میں جو،سبھی رحمٰن کے بندے

جو طاعت میں ہوئے کامل وہی پھرعبدہٗ نکلے


مہینہ آ گیا شاہا ! ترے دُنیا میں آنے کا

جلوس آقاْ مُحبّت کے جہاں میں کُو بکُو نکلے


تری ناموس پر آقاْ ! رہیں گے سر بکف ہر دم

بدن سے آخری قطرہ نہ جس دم تک لہو نکلے


عمل ہو سیرتِ سرکارِ دو عالم پہ ہر لمحے

جلیل اب زندگانی کی یہی بس جُستجو نکلے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

بُلا لیجے گا عاصی کو بھی در پر یا رسول اللہ

مری خوش نصیبی کی یہ انتہا ہے

ہمسفر جس جگہ رُک گیا آپ کا

رہتا ہوں خیالوں میں ہر آن مدینے میں

لب پہ جاری جو ذکرِ نبی ہو گیا

خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے

وطیرہ آپ کا آقا ! کرم کی انتہا کرنا

جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول

سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے