میں اکیلا کھڑا ہوں کڑی دُھوپ میں

میں اکیلا کھڑا ہوں کڑی دُھوپ میں، اپنی رحمت کی چادر عطا کیجئے

آپؐ سے میں نے مانگا ہے قطرہ مگر، آپؐ مجھ کو سمندر عطا کیجئے


میری ساری فضا جگمگاتی رہے، میرے دِل کی دُعا مسکراتی رہے

میرے یخ بستہ ہونٹو ں کو بہر خدا، ایسا حرفِ منّور عطا کیجئے


ہر طرف نُور پھیلا ہوا دیکھ لُوں، اپنی آنکھوں سے غارِ حرا دیکھ لُوں

میری رہ دیکھتی اِن نگاہوں کو بھی، سبز گنبد کا منظر عطا کیجئے


آپؐ کا جسم ہے اور سایہ نہیں، آپؐ جیسا کبھی کوئی آیا نہیں

آپؐ کے در پہ جھکتا رہے جو سدا، میرے شانوں کو وہ سر عطا کیجئے


ایک پتھر کی صورت پڑا ہوں یہاں، جانا چاہوں مگر جا نہ پاؤں وہاں

میں مدینے میں اڑتا پھروں ہر طرف، اُڑنے والے مجھے پر عطا کیجئے


میری آنکھوں سے دریا ٹپکتا رہے، آپؐ کی یاد سے دل مہکتا رہے

حوضِ کوثر سے پہلے مجھے یانبیؐ ! آپؐ اِک حوضِ کوثر عطا کیجئے


مَیں سُوالی بہت بے سلیقہ سہی، آدمی کم نظر بے طریقہ سہی

مَیں نے مانگا ہے کمتر تو پھر کیا ہوا، یانبیؐ! آپؐ بہتر عطا کیجئے


آپؐ کے نام پر جو لُٹا بھی سکے، آپؐ کے نام پر جو گرا بھی سکے

آسماں کی طرح جو کُشادہ بھی ہو، اپنے انجؔم کو وہ گھر عطا کیجئے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

مجھ کو مہکار محسوس ہو آپؐ کی

ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

تیری یادوں کا ہر لمحہ تازہ خوشبو جیسا ہے

جو عہد کیا تھا آقاؐ سے وہ عہد نبھانے والا ہوں

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

آپؐ کی نعتیں میں لکھ لکھ کر سناؤں آپؐ کو

یہ مانا رسولوں کی اک کہکشاں ہے

دِل کے ورق ورق پہ ترا نام لکھ دیا

یہیں آنکھ انسانیت کی کھلی ہے

یہاں شور جائز تھا پہلے نہ اب ہے