ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

فرشتے جانتے ہیں وہ کہاں دستک نہیں دیتے


کھڑے رہتے ہیں دروازے پہ سائل کی طرح برسوں

ہم ایسے بے وجود و بے زباں دستک نہیں دیتے


گزر جاتے ہیں خوشبو کی طرح چُپ چاپ گلیوں سے

مدینے میں ہوا کے سائباں دستک نہیں دیتے


ہم ایسے واقفانِ راز ہائے شہرِ خوش بختاں

وہاں پلکیں بچھاتے ہیں وہاں دستک نہیں دیتے


یہی اِک بارگاہِ نُور ہے کونین میں تنہا

جہاں پر احتراماً آسماں دستک نہیں دیتے


پرندے ہوں ، درندے ہوں، کہ ہوں مہکے ہوئے موسم

مدینے کی زمیں پر نغمہ خواں دستک نہیں دیتے


یہاں پر عاجزی کی چادریں سب اوڑھ لیتے ہیں

یہاں چھوٹے بڑے سب کارواں دستک نہیں دیتے


وہاں کچھ اور ہی اسلوب ہیں آواز دینے کے

وہاں پر میرے انجؔم میری جاں دستک نہیں دیتے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

خُلد کے منظر مدینے میں نظر آئے بہت

مدینہ مل گیا ورنہ سہارے ڈھونڈتا رہتا

نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے

سرکارِ مدینہ کے در سے اے داور محشر! کیا مانگوں

مجھ کو مہکار محسوس ہو آپؐ کی

تیری یادوں کا ہر لمحہ تازہ خوشبو جیسا ہے

جو عہد کیا تھا آقاؐ سے وہ عہد نبھانے والا ہوں

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

میں اکیلا کھڑا ہوں کڑی دُھوپ میں

آپؐ کی نعتیں میں لکھ لکھ کر سناؤں آپؐ کو