نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے

نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے

مرے آقاؐ مجھے بس نعت خواں کہہ کر پکاریں گے


بہ فیضِ مصطفیٰؐ ہوگی فرشتوں میں پذیرائی

میں ذرّہ ہوں مگر وہ آسماں کہہ کر پکاریں گے


قدم رکھوں گا نامعلوم وادی میں تو وہ مجھ کو

غلامِ خواجہءِ کون و مکاں کہہ کر پکاریں گے


صحابہ سے جو نسبت ہے مجھے اُس کے طفیل آقاؐ

فقیر کوچۂِ فردوسیاں کہہ کر پکاریں گے


کنارے پر جو پہنچے گی سمندر چیر کر آخر

اُسی کشتی کا مجھ کو بادباں کہہ کر پکاریں گے


پگھلتے جارہے ہوں گے بدن جب خوف سے انجؔم

مجھے وہ شاعری کا سائباں کہہ کر پکاریں گے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

مدینہ کی تمنا میں مدینہ بن کے بیٹھا ہوں

اتنی بلندیوں سے ابھر کر نہیں ملا

تریؐ نورانی بستی میں چلوں آہستہ آہستہ

خُلد کے منظر مدینے میں نظر آئے بہت

مدینہ مل گیا ورنہ سہارے ڈھونڈتا رہتا

سرکارِ مدینہ کے در سے اے داور محشر! کیا مانگوں

مجھ کو مہکار محسوس ہو آپؐ کی

ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

تیری یادوں کا ہر لمحہ تازہ خوشبو جیسا ہے

جو عہد کیا تھا آقاؐ سے وہ عہد نبھانے والا ہوں