مدینہ کی تمنا میں مدینہ بن کے بیٹھا ہوں

مدینہ کی تمنا میں مدینہ بن کے بیٹھا ہوں

میں اِس دریا کے اندر اِک سفینہ بن کے بیٹھا ہوں


ابھی تک سبز گنبد کو اِن آنکھوں سے نہیں دیکھا

میں کتنا خود غرض، کتنا کمینہ، بن کے بیٹھا ہوں


کہاں میں اور کہاں اس کملی والے کی ثنا خوانی

میں اِس مشکل میں سرتاپا پسینہ بن کے بیٹھا ہوں


مجھے ڈر ہے کوئی یہ چھین کر مجھ سے نہ لے جائے

ہزاروں آنسوؤں کا مَیں خزینہ بن کے بیٹھا ہوں


رسالتؐ کے ادب میں سانس بھی اونچی نہیں لیتا

دھڑکنے سے جو عاری ہے وہ سینہ بن کے بیٹھا ہوں


بہت کمتر سہی لیکن میں اِس دورِ تغافل میں

محبت اور عقیدت کا قرینہ بن کے بیٹھا ہوں


مرے دل میں سدا رہتی ہیں تازہ آپؐ کی یادیں

ولادت باسعادت کا مہینہ بن کے بیٹھا ہوں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

شہنشاہوں کو تیرے گھر کی دربانی نہیں ملتی

بُری ہے یا بھلی اُس کے لیے ہے

شیریں ہے مثلِ حرفِ دُعا نام آپؐ کا

تری عظمت کے سُورج کو زوال آیا نہیں اب تک

شہر نبیؐ کے منبر و مینار چُومنا

اتنی بلندیوں سے ابھر کر نہیں ملا

تریؐ نورانی بستی میں چلوں آہستہ آہستہ

خُلد کے منظر مدینے میں نظر آئے بہت

مدینہ مل گیا ورنہ سہارے ڈھونڈتا رہتا

نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے