مدینہ کی تمنا میں مدینہ بن کے بیٹھا ہوں
میں اِس دریا کے اندر اِک سفینہ بن کے بیٹھا ہوں
ابھی تک سبز گنبد کو اِن آنکھوں سے نہیں دیکھا
میں کتنا خود غرض، کتنا کمینہ، بن کے بیٹھا ہوں
کہاں میں اور کہاں اس کملی والے کی ثنا خوانی
میں اِس مشکل میں سرتاپا پسینہ بن کے بیٹھا ہوں
مجھے ڈر ہے کوئی یہ چھین کر مجھ سے نہ لے جائے
ہزاروں آنسوؤں کا مَیں خزینہ بن کے بیٹھا ہوں
رسالتؐ کے ادب میں سانس بھی اونچی نہیں لیتا
دھڑکنے سے جو عاری ہے وہ سینہ بن کے بیٹھا ہوں
بہت کمتر سہی لیکن میں اِس دورِ تغافل میں
محبت اور عقیدت کا قرینہ بن کے بیٹھا ہوں
مرے دل میں سدا رہتی ہیں تازہ آپؐ کی یادیں
ولادت باسعادت کا مہینہ بن کے بیٹھا ہوں
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو