تریؐ نورانی بستی میں چلوں آہستہ آہستہ

تریؐ نورانی بستی میں چلوں آہستہ آہستہ

قدم ارضِ مقدس پر دھروں آہستہ آہستہ


ادب کا یہ تقاضا ہے کہ میں فرطِ عقیدت سے

کہوں صلِّ علیٰ لیکن کہوں آہستہ آہستہ


ترا اسمِ مبارک اِحتراماً صاف کاغذ پر

لکھوں میں ہَولے ہَولے اور پڑھوں آہستہ آہستہ


زیادہ دیر تک فرصت ملے مجھ کو زیارت کی

مجھے مرنا تو ہے لیکن مرُوں آہستہ آہستہ


مری خواہش کہ صبح و شام جا کر تیری چوکھٹ پر

جھکوں میں دھیرے دھیرے اور اُٹھوں آہستہ آہستہ


کوئی لغزش نہ سرزد ہو قدم بوسی کی خواہش میں

یہ منزل طے کروں لیکن کروں آہستہ آہستہ


زیادہ دیر تک یہ ذائقہ باقی رہے مُنہ میں

ترا جب نام لینا ہو تو لوں آہستہ آہستہ

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

شیریں ہے مثلِ حرفِ دُعا نام آپؐ کا

تری عظمت کے سُورج کو زوال آیا نہیں اب تک

شہر نبیؐ کے منبر و مینار چُومنا

مدینہ کی تمنا میں مدینہ بن کے بیٹھا ہوں

اتنی بلندیوں سے ابھر کر نہیں ملا

خُلد کے منظر مدینے میں نظر آئے بہت

مدینہ مل گیا ورنہ سہارے ڈھونڈتا رہتا

نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے

سرکارِ مدینہ کے در سے اے داور محشر! کیا مانگوں

مجھ کو مہکار محسوس ہو آپؐ کی