یہیں آنکھ انسانیت کی کھلی ہے

یہیں آنکھ انسانیت کی کھلی ہے

شرافت اسی گھر میں پھولی پھلی ہے


یہیں سے ہوئی ابتدائے رسالت

اسی گھر میں شمع رسالت جلی ہے


جھُکی ہے نگاہِ دوعالم اسی پر

بشر کو یہ حُرمت یہیں سے مِلی ہے


یہی گھر ہے سارے جہانوں سے افضل

اسی گھر کے ٹکڑوں پہ دنیا پلی ہے


یہاں ثانئ اثنین کا ہے ٹھکانہ

یہاں ثور کی ایک کھڑکی کھلی ہے


یہیں سے ہوا بند بابِ نبوت

اسی گھر سے رسم شہادت چلی ہے


عمر ہی عمر ہے جدھر دیکھتا ہوں

اُفق سے اُفق تک علی ہی علی ہے


پہنچتی ہے جو سیدھی جنت میں انجؔم

یہی وہ گلی ہے ، یہی وہ گلی ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

میں اکیلا کھڑا ہوں کڑی دُھوپ میں

آپؐ کی نعتیں میں لکھ لکھ کر سناؤں آپؐ کو

یہ مانا رسولوں کی اک کہکشاں ہے

دِل کے ورق ورق پہ ترا نام لکھ دیا

یہاں شور جائز تھا پہلے نہ اب ہے

بہت دیر کی دِل نے وا ہوتے ہوتے

وہی تو حُرمتِ لوح و قلم ہے

نبیّوں سے بڑھ کر نبی آگیا ہے

چلو جا کے غارِ حِرا دیکھ آئیں