میں مدینے میں ہوں حاضر وقت بھی اور بخت بھی

میں مدینے میں ہوں حاضر وقت بھی اور بخت بھی

کام آیا میرے آخر وقت بھی اور بخت بھی


سچ تو یہ ہے سرورِؐ کونین کے فیضان سے

رحمتیں لایا ہے وافر وقت بھی اور بخت بھی


میرے ہاتھوں کی لکیریں راستے طیبہ کے ہیں

ان کے دائم ہیں مسافر وقت بھی اور بخت بھی


بالیقیں حسنِ سکینت حاضری میں پائے گا

ساتھ اپنے لایا زائر وقت بھی اور بخت بھی


زیرِ خاکِ شہرِ طیبہ خاک میری جائے گی

دل پہ کرتا ہے یہ ظاہر وقت بھی اور بخت بھی


عین ممکن ہے مکمل بابِ مدحت ہو رقم

رب عطا کردے جو وافر وقت بھی اور بخت بھی


میرے لب پر ہے درودِ پاک ان کا جب تلک

ہے مرا ہمدرد و ناصر وقت بھی اور بخت بھی


جب تصوّر میں ہمہ دم اُن کے قدموں میں رہیں

ہو نہیں سکتا غلط پھر وقت بھی اور بخت بھی


محفلِ میلاد کی برکات کا اپنا ہے رنگ

ہو گیا طاہرؔ ہے طاہر وقت بھی اور بخت بھی

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

در عطا کے کھلتے ہیں

زمینِ شہرِ طیبہ پر ستارے ہی ستارے ہیں

نعت کے صحیفے ہیں

مضموں میں جس کے حبِ شہِؐ دوسرا نہیں

وداعِ طیبہ پہ آنکھوں سے جو گرے آنسو

ہو آگ، پانی، ہوا کہ مٹی

تو شاہِ لولاک نبیؐ جی

زندگی کا مسئلہ ہے واپسی

حق نے پہلے مجھے زباں بخشی

بخشا ہے ایسا نعت نے اسلوبِ دلکشی