مجھ کو سردی میں بھی آتے ہیں پسینے کیسے

مجھ کو سردی میں بھی آتے ہیں پسینے کیسے

مجھ کو ہائے یاد کیا میرے نبیؐ نے کیسے


چپکے چپکے جو انہیں یاد کیا کرتے ہیں

جانے ہوتے ہیں وہ دل اور وہ سینے کیسے


کیسے اُٹھتے ہیں قدم اُن کے حِرا کی جانب

دوڑے جاتے ہیں مسافر یہ مدینے کیسے


جھُوم اُٹھی ہے فرشتوں کے پروں کی خوشبو

اُن کی چوکھٹ کا لیا بوسہ کسی نے کیسے


جن کو دیتے ہیں پناہیں وہ مدینے والے

جانے ہوتے ہیں وہ خوش بخت سفینے کیسے


میں بھی ہو آیا ہوں اِک بار وہاں سے انجؔم

مجھ کو چاہا تھا غنی ابنِ غنی نے کیسے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

کوئی نبی نہ ہوگا ہمارے نبی کے بعد

محبت کے چشمے ابلنے سے پہلے

آنکھوں سے چھلکتا ہے ایمان مدینے میں

گھپ اندھیرا تھا یہاں بزمِ حِرا سے پہلے

آپ کی یادوں سے مہکی دل کی دھڑکن رات بھر

نبی سب آچکے تو آپ کے آنے کا وقت آیا

نبی کو حالِ دل اپنا سنانا بھول جاتا ہوں

نعت کہنے کا سلیقہ بے ادب لہجہ نہ ہو

چاپ قدموں کی سنائی دے پسِ لولاک بھی

اے حِرا سچ سچ بتا جانِ وفا کیسا لگا