اے حِرا سچ سچ بتا جانِ وفا کیسا لگا

اے حِرا سچ سچ بتا جانِ وفا کیسا لگا

اپنی گہری سوچ میں ڈُوبا ہوا کیسا لگا


اوس جب گرنے لگی تھی صبح کی دہلیز پر

ایسے لمحوں میں محمد مصطفےٰ کیسا لگا


تُونے دیکھا ہے نجانے چاند کتنی دُور سے

اس قدر نزدیک سے یہ مَہ لقا کیسا لگا


اس کے چہرے پر جھکی ہر اِک گھڑی کیسی لگی

اِس کی پیشانی کو ہر پل چُومنا کیسا لگا


اے حِرا کچھ تو بتا تیری مقدس اوٹ میں

آمنہ کا لعل یوں بیٹھا ہوا کیسا لگا


حُسن میں ڈُوبے ہوئے اِک حُسن میں اِک اور حُسن

اُس کی آنکھوں میں اُبھرتا ڈُوبتا کیسا لگا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

مجھ کو سردی میں بھی آتے ہیں پسینے کیسے

نبی سب آچکے تو آپ کے آنے کا وقت آیا

نبی کو حالِ دل اپنا سنانا بھول جاتا ہوں

نعت کہنے کا سلیقہ بے ادب لہجہ نہ ہو

چاپ قدموں کی سنائی دے پسِ لولاک بھی

اذانوں کی طرح تحلیل ہو جاؤں مدینے میں

چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے

رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

ہماری دنیا میں کیا رکھا تھا جو شاہِ بطحا مِلا نہ ہوتا

تیری ساری باتیں لکھنا میرے بس کی بات نہیں