چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے

چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے

کوئی غم نہیں ہے حسیں تیرے غم سے


یہ وسعت کہاں اس کی آب و ہوا میں

بہت کم ہے خُلدِ بریں تیرے غم سے


یہی ہے خدا کو بھی منظور شاید

تڑپتا رہوں میں یہیں تیرے غم سے


بگڑتی چلی جاتی ہے دل کی حالت

پگھل ہی نہ جائے کہیں تیرے غم سے


اُسے کیا خبر اِس میں لذّت ہے کتنی

جو انسان واقف نہیں تیرے غم سے


چراغوں کی صورت چمکنے لگی ہے

مرے چار جانب زمیں تیرے غم سے


لگے چوٹ تو اور بڑھتا ہے ایماں

نکھرتا ہے میرا یقیں تیرے غم سے


خدا اِن کو رکھے ہمیشہ سلامت

وہ شمعیں جو روشن ہوئیں تیرے غم سے


اچانک برسنے لگیں میری آنکھیں

کوئی تار ٹُوٹا کہیں تیرے غم سے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

نبی کو حالِ دل اپنا سنانا بھول جاتا ہوں

نعت کہنے کا سلیقہ بے ادب لہجہ نہ ہو

چاپ قدموں کی سنائی دے پسِ لولاک بھی

اے حِرا سچ سچ بتا جانِ وفا کیسا لگا

اذانوں کی طرح تحلیل ہو جاؤں مدینے میں

رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

ہماری دنیا میں کیا رکھا تھا جو شاہِ بطحا مِلا نہ ہوتا

تیری ساری باتیں لکھنا میرے بس کی بات نہیں

شہنشاہ شرم و حیا آپؐ ہیں

تری دہلیز پر آیا ہوا خالی نہیں جاتا