اذانوں کی طرح تحلیل ہو جاؤں مدینے میں
میں خود کو ڈھونڈنے نکلوں تو کھوجاؤں مدینے میں
فرشتے بھی جدا مجھ کو نہ کر پائیں مدینے سے
مدینہ اوڑھ کر میں آپ سوجاؤں مدینے سے
قیامت تک تر و تازہ رہے رنگ اور بُو جن کی
عقیدت کے میں ایسے پھول بو جاؤں مدینے میں
میں شاخِ لا الٰہ کی نوک پر منصور کی صورت
حریمِ جسم کے ٹکڑے پرو جاؤں مدینے میں
اگر ممکن نہیں میرے لیے کوہِ صفا ہونا
کسی دیوار کا سایہ میں ہو جاؤں مدینے میں
ابھی لینا ہے میں نے غُسل آبِ نور میں انجؔم
اتر جائے بدن سے دھول تو جاؤں مدینے میں
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو