اذانوں کی طرح تحلیل ہو جاؤں مدینے میں

اذانوں کی طرح تحلیل ہو جاؤں مدینے میں

میں خود کو ڈھونڈنے نکلوں تو کھوجاؤں مدینے میں


فرشتے بھی جدا مجھ کو نہ کر پائیں مدینے سے

مدینہ اوڑھ کر میں آپ سوجاؤں مدینے سے


قیامت تک تر و تازہ رہے رنگ اور بُو جن کی

عقیدت کے میں ایسے پھول بو جاؤں مدینے میں


میں شاخِ لا الٰہ کی نوک پر منصور کی صورت

حریمِ جسم کے ٹکڑے پرو جاؤں مدینے میں


اگر ممکن نہیں میرے لیے کوہِ صفا ہونا

کسی دیوار کا سایہ میں ہو جاؤں مدینے میں


ابھی لینا ہے میں نے غُسل آبِ نور میں انجؔم

اتر جائے بدن سے دھول تو جاؤں مدینے میں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

نبی سب آچکے تو آپ کے آنے کا وقت آیا

نبی کو حالِ دل اپنا سنانا بھول جاتا ہوں

نعت کہنے کا سلیقہ بے ادب لہجہ نہ ہو

چاپ قدموں کی سنائی دے پسِ لولاک بھی

اے حِرا سچ سچ بتا جانِ وفا کیسا لگا

چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے

رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

ہماری دنیا میں کیا رکھا تھا جو شاہِ بطحا مِلا نہ ہوتا

تیری ساری باتیں لکھنا میرے بس کی بات نہیں

شہنشاہ شرم و حیا آپؐ ہیں