رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

تجھ سے نہ محبت ہوتی تو ایمان پیاسا رہ جاتا


والّیل کی میٹھی باتیں بھی محرومِ سماعت ہو جاتیں

تعریف نہ ہوتی گر تیری قرآن پیاسا رہ جاتا


طیبہ میں ترے گر قدموں کی آہٹ نہ سُنائی دے جاتی

سینوں میں تمنّا کا اُٹھتا طوفان پیاسا رہ جاتا


ہر بات ادھوری رہ جاتی ہونٹوں پہ دو عالم کے آخر

دارین کی زیب و زینت کا سامان پیاسا رہ جاتا


اَسریٰ کے مسافر کا سایہ پڑتا نہ اگر اس دنیا میں

انسان کی عظمت کا ہر اِک عنوان پیاسا رہ جاتا


معراج کی شب کے دامن کو بھرتے نہ فرشتے خوشبو سے

کونین سجانے والے کا ارمان پیاسا رہ جاتا


پتھر نہ چمکتے گلیوں کے ، تعظیم نہ بڑھتی غاروں کی

ہر شخص کی بخشش کا ہراِک امکان پیاسا رہ جاتا


کوثر پہ کھڑے ہو کر مدنی ساغر نہ پلاتے گر انجؔم

اُس وادئ محشر کا ہر اِک مہمان پیاسا رہ جاتا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

نعت کہنے کا سلیقہ بے ادب لہجہ نہ ہو

چاپ قدموں کی سنائی دے پسِ لولاک بھی

اے حِرا سچ سچ بتا جانِ وفا کیسا لگا

اذانوں کی طرح تحلیل ہو جاؤں مدینے میں

چمکتی ہے میری جبیں تیرے غم سے

ہماری دنیا میں کیا رکھا تھا جو شاہِ بطحا مِلا نہ ہوتا

تیری ساری باتیں لکھنا میرے بس کی بات نہیں

شہنشاہ شرم و حیا آپؐ ہیں

تری دہلیز پر آیا ہوا خالی نہیں جاتا

تجھے مَیں اس قدر چاہوں کہ دل گلزار بن جائے