نہ خوابِ جنت و حُور و قصور دیکھا ہے

نہ خوابِ جنت و حُور و قصور دیکھا ہے

نہ ہم نے جلوہء طوبیٰ و طور دیکھا ہے


مگر یہ ناز ہے ہم کو کہ چشم باطن سے

ہزار بار مدینہ ضرور دیکھا ہے


وفورِ شوق میں ہم چل پڑے ہیں سوئے حرم

نہ پاس دیکھا ہے ہم نے نہ دُور دیکھا ہے


چراغِ طاقِ حرم ہے ‘ حریم کعبہ ہے

وہ آنکھ جس نے دیارِ حضور ﷺ دیکھا ہے


اذانِ صبح میں جب جب سنا ہے نام ِرسول ﷺ

زمیں سے تابہ فلک خطِ نور دیکھا ہے


خدا کی شان نظر آئی ہم کو قرآں میں

مگر کچھ اور بھی بین السطور دیکھا ہے


مدینے جا کے نہ پوچھو کہ ہم نے کیا دیکھا

بس ایک عالمِ صد رنگ و نُور دیکھا ہے


خلوصِ دل سے صدا دی ہے جب انہیں اقبؔال

نزولِ رحمت ِ ربِ غفور دیکھا ہے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

سرورِ دین و شہنشاہ اُمم

کرتے ہیں عرض حال زبانِ قلم سے ہم

اے امامِ عارفین و سالکیں

عطا ہوئی ہے ہمیں اس لئے پناہِ رسول ﷺ

ہم خاک مجسم ہیں مگر خاکِ حرم ہیں

روز و شب ہم مدحت خیر الوراﷺ کرتے رہے

اے مہِ نورِ ازل ‘ اے شہِ لولاک قدم

میرے آقاﷺ اپنے دل کا حال میں کس سے کہوں

کچھ سجدے مدینے کے لئے کیوں نہ بچا لیں

مجھ سے مری خطاؤں کی لذّت نہ پوچھیے