نطق میرا سعدی و جامی سے ہم آہنگ ہو

نطق میرا سعدی و جامی سے ہم آہنگ ہو

گفتگو میں مدحتِ خیر الوریٰ کا رنگ ہو


الفتِ سرکارِ بطحا ہو رگِ جاں میں رواں

مست عشقِ مصطفیٰ میں میرا ہر اک انگ ہو


پیروی شاہِ مدینہ کی ہو میرا مشغلہ

ہر گھڑی مدِ نظر جانِ جہاں کا ڈھنگ ہو


دوستی ہو آپ کے در کے غلاموں سے مری

آپ کے گستاخ سے میری ہمیشہ جنگ ہو


جس کے دل میں دُھن سمائی ہو شہِ کونین کی

غیر ممکن ہے کہ اس کے دل پہ کوئی زنگ ہو


میں بھکاری تاجدارِ دو جہاں کے در کا ہوں

مانگتا ہوں آپ سے جب ہاتھ میرا تنگ ہو


عرش کو چھو لے مری تقدیر کا تارا، اگر

حشر میں اشفاقؔ شاہِ انبیاء کے سنگ ہو

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

جس کا سر محمدﷺ کے در پہ خم نہیں ہوتا

شاہِ مدینہ! طلعت اختر تورے پیّاں میں

صحنِ گلشن میں گھٹا نور کی چھائی ہوئی ہے

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے

نوازا جاتا ہے سنگِ در پر گداؤں کو بار بار واللہ

درود ان پر سلام ان پریہ ورد رائج ہے دوجہاں میں