پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

ادھر بھی کرم کی نظر مورے آقا


کٹھن کس قدر تھا وہ پل سر زمیں پر

گئے جب تھے معراج پر مورے آقا


میسر ہو جس رات خوابِ زیارت

نہ اس رات کی ہو سحر مورے آقا


وہی پل تو ہیں یاد آنے کے قابل

جو در پر ہوئے ہیں بسر مورے آقا


کریں معبدِ نعت میں حرف سجدے

عنایت ہو ایسا ہنر مورے آقا


دیارِ منور کی یادوں میں اکثر

مری آنکھ رہتی ہے تر مورے آقا


سخن ہے مرا مثلِ شاخِ بریدہ

ودیعت ہَوں برگ و ثمر مورے آقا


بنے قلبِ اشفاقؔ ایسا مزکٰی

رہے آپ کا مستقر مورے آقا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

یاد سینے میں سمائی ترے دربار کی ہے

ہر اک بات امی لقب جانتے ہیں

جس کا سر محمدﷺ کے در پہ خم نہیں ہوتا

شاہِ مدینہ! طلعت اختر تورے پیّاں میں

صحنِ گلشن میں گھٹا نور کی چھائی ہوئی ہے

اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

نطق میرا سعدی و جامی سے ہم آہنگ ہو

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے