شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

دم بخود دیر تک دیکھتے رہ گئے


لامکاں کے مسافر کا عزّ و شرف

مہر و ماہ و فلک دیکھتے رہ گئے


دل نے سجدہ کیا سنگِ دربار پر

اشک زیرِ پلک دیکھتے رہ گئے


زائروں کی جبینوں پہ لکھی ہوئی

ایک نوری دمک دیکھتے رہ گئے


جس سے گزرے تھے حاجی بڑی شان سے

ہم وہ خالی سڑک دیکھتے رہ گئے


مانگنے رنگ آئی تھی بارش کے دن

تیرے در پر دھنک دیکھتے رہ گئے


رات دن گنبدِ سبز سے پھوٹتی

ایک پیاری چمک دیکھتے رہ گئے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

صحنِ گلشن میں گھٹا نور کی چھائی ہوئی ہے

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

نطق میرا سعدی و جامی سے ہم آہنگ ہو

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے

نوازا جاتا ہے سنگِ در پر گداؤں کو بار بار واللہ

درود ان پر سلام ان پریہ ورد رائج ہے دوجہاں میں

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

آتا ہے یاد شاہِ مدینہ کا در مجھے