دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

مدحِ سرور دوا ہو گئی ہے


در ملے مہر و ماہِ حرا کا

ہر کسی کی دعا ہو گئی ہے


سائرِ لا مکاں کے کرم سے

روح دکھ سے رہا ہو گئی ہے


اس گلی سے کرم ہو رہا ہے

وہ گلی مدعا ہو گئی ہے


ہو گئے دل کے حاکم مکرم

راہ دل کی حرا ہو گئی ہے


اے دو عالم کے سلطاں کرم ہو

اس گدا کی صدا ہو گئی ہے


ماہِ کامل کا احساں ہوا ہے

مدحِ سرور عطا ہو گئی ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

سرورِ قلب و جاں کی چشمِ التفات چاہئے

نوازا جاتا ہے سنگِ در پر گداؤں کو بار بار واللہ

درود ان پر سلام ان پریہ ورد رائج ہے دوجہاں میں

آتا ہے یاد شاہِ مدینہ کا در مجھے

وہ رہے گا سدا حکمراں

بے بسوں بے کسوں کی دعا مصطفیٰ

مصحفِ روئے منور کی تلاوت کر لوں

قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں