مصحفِ روئے منور کی تلاوت کر لوں

مصحفِ روئے منور کی تلاوت کر لوں

اپنی آنکھوں کی بصارت کو بصارت کر لوں


بہرِ توصیف و ثناء کر کے وضو اشکوں سے

خامۂ عجز کے ہمراہ ریاضت کر لوں


دست بستہ تری چوکھٹ پہ کھڑا ہوں نادم

سر اٹھانے کا ہو یارا تو زیارت کر لوں


اے مری موت ذرا ٹھیر مرے سر ہانے

مژدۂ صبحِ ملاقات سماعت کر لوں


ضو فشاں دل کے حرا میں ہے تصور ان کا

اک ذرا رب سے طلب حسنِ نظارت کر لوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

درود ان پر سلام ان پریہ ورد رائج ہے دوجہاں میں

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

آتا ہے یاد شاہِ مدینہ کا در مجھے

وہ رہے گا سدا حکمراں

بے بسوں بے کسوں کی دعا مصطفیٰ

قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں

شمس الضحیٰ سا چہرہ قرآن کہہ رہا ہے

قلم کو ذوقِ نعت بھی ہے شوقِ احتیاط بھی

خطا ختن کے مشک سے دہن کو باوضُو کروں

سجا ہے لالہ زار آج نعت کا