قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں

قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں

اپنی ہر سوچ مدینے کی طرف رکھتا ہوں


اپنے ہر حرف کو دیتا ہوں محامد کا عَلَم

اپنے الفاظ کو انوار بکف رکھتا ہوں


دو کریموں سے ہی امیدِ کرم ہے ورنہ

فردِ اعمال میں بے فیض خذف رکھتا ہوں


کچھ تو ہو سنگِ درِ جانِ دو عالم کے لئے

گوہر اشک بہ انداِ صدف رکھتا ہوں


میری مرقد سےبھی آئے گی گُلابوں کی مہک

کیونکہ میں دل کو طلب گارِ نجف رکھتا ہوں


خُوش مقدر ہوں نوازا ہے بہت آقا نے

ان کی چوکھٹ پہ حضُوری کا شرف رکھتا ہوں


گُن نہیں کوئی بھی اشفاقؔ سوائے اس کے

مدحتِ سرورِ عالم کا شغف رکھتا ہوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

آتا ہے یاد شاہِ مدینہ کا در مجھے

وہ رہے گا سدا حکمراں

بے بسوں بے کسوں کی دعا مصطفیٰ

مصحفِ روئے منور کی تلاوت کر لوں

شمس الضحیٰ سا چہرہ قرآن کہہ رہا ہے

قلم کو ذوقِ نعت بھی ہے شوقِ احتیاط بھی

خطا ختن کے مشک سے دہن کو باوضُو کروں

سجا ہے لالہ زار آج نعت کا

حاصل ہے مجھ کو نعت کا اعزاز یا نبیؐ