قلم کو ذوقِ نعت بھی ہے شوقِ احتیاط بھی
وَرَق وَرَق پہ لکھ رہا ہے خُلدکی صِراط بھی
دیارِ نُور میں ہیں دونوں کیفیات اوج پر
غمِ فراق بھی حضُوریوں کا اِنبساط بھی
بڑھا رہی ہے اُن کی یاد اِشتیاقِ دید کو
خیالِ شاہِ محترم ہے باعثِ نِشاط بھی
ہر ایک سوچ مُرتکز ہے کوئے مُشک بار پر
اسی سے میرا اُنس بھی ہے ربط و اِرتِباط بھی
بشر کو مل رہے ہیں سنگِ آستاں پہ مرتبے
وہیں پہ ہو رہا ہے قدسیوں سے اِختلاط بھی
کہیں نہ دامنِ رسُول چھوٹ جائے ہاتھ سے
حذر یہ راہِ مرگ ہے یہی ہے انحطاط بھی
میں لائقِ حضور ایک حرف کر سکوں رقم
مجال بھی نہیں یہاں مری نہیں بساط بھی
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان